اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

اتوار، 27 اکتوبر، 2024

نمونہ روداد نویسی ، ریل گاڑی کے سفر کی روداد

 

*لاہور تا کراچی کے سفر ریل کی روداد نویسی* 

گزشتہ ماہ  کراچی جانے کا اتفاق ہوا ۔ یہ سفر ہم نے ریل کار کے ذریعے کیا تھا اس کے سفر کی روداد کچھ یوں پیش ہے۔ 

لاہور سے کراچی روانہ ہونے کا وقت ہوا تو پہلے ہی مرحلے میں ٹرین لیٹ تھی۔ کوئی کہہ رہا تھا، "بھائی، یہ تو سدا کا معمول ہے!" ہم نے دل میں کہا، "اگر لیٹ نہ ہو تو کیا یہ ہماری قومی ٹرین کہلائے؟" خیر، دو گھنٹے انتظار کے بعد جب ٹرین آئی تو سب مسافر ایسے لپکے جیسے یہ کوئی نایاب خزانہ ہو۔

لاہور کا وہ سرد موسم اور خوشبو دار ہوا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جیسے ہی ٹرین روانہ ہوئی، ہمیں ایک شعر یاد آیا:

 ہم سفر میں بھی غمِ ہجر نہ چھوڑیں گے

اک تماشا ہے جو دکھاتے رہیں گے ہم

راہ میں سر سبز کھیت، لاہور کے باغ، اور پنجاب کی خوبصورتیاں ایک کے بعد ایک پیچھے چھوٹتی گئیں۔ ہمارے ساتھ ایک بزرگ بیٹھے تھے جو بار بار یہی دہراتے کہ "کراچی میں وہ بات کہاں!" ہم نے کہا، "جناب، کراچی کی اپنی ہی دنیا ہے۔ وہاں زندگی کی دوڑ ہے، جو رکتی نہیں!"

ہر چھوٹے اسٹیشن پر جیسے ہی ٹرین رکی، ایک ہجوم چائے، سموسے، اور جوس لے کر چڑھ آیا۔ اور مسافر ایسے چمٹے جیسے کھانا اور سفر کا ایک ہی ٹکٹ تھا۔ ایک صاحب نے چائے پی اور پھر جیسے فلسفیانہ گفتگو شروع کر دی: "چائے ہو تو ایسی ہو کہ لاہور یاد آئے اور کراچی بھول جائے۔" ہم نے ہنستے ہوئے کہا، "بھائی، یہ چائے آپ کے پیسے کی مار ہے، یادیں اور بھولنا ہمارے بس میں کہاں!"

جیسے ہی رات آئی، خراٹوں کا کنسرٹ شروع ہو گیا۔ ایک طرف ایک بزرگ صاحب تھے جن کے خراٹے ایسے تھے جیسے طوفان کی زد میں ہوں۔ ہمارے ایک ساتھی مسافر نے کہا، "بھائی، یہ خراٹے کسی سائلنسر کے بغیر ہیں!" دوسرا بولا، "اور کراچی پہنچنے تک ایسے ہی رہیں گے!" یوں ہنسی مذاق کے دوران کچھ لوگ سو گئے اور کچھ نے اس خراٹوں کے کنسرٹ کا ہی مزہ لیا۔

جب کراچی کے قریب پہنچے تو فضا میں نمی اور سمندر کی خوشبو محسوس ہونے لگی۔ جیسے ہی ٹرین رکی، ایک عجیب سا رش تھا۔ ایک بزرگ بولے، "کراچی والے بہت مصروف لوگ ہیں، سلام تک کا وقت نہیں!" جواب آیا، "کراچی والوں کی زندگی سلام کے بغیر بھی تیز چلتی ہے!"

کراچی کی فضا میں قدم رکھتے ہی دل خوش ہوا، مگر سفر کی تھکان اور ہنسی مذاق کی یادیں رہ گئیں۔

 ایک  شعر دل میں گونجا:

 یہ سفر کی تھکان ہے یا منزل کا نشہ 

دل کہتا ہے، نکلنا ہے اسی رہگزر پہ دوبارہ 

یوں، یہ سفر لاہور سے کراچی تک کی ایک خوش گوار یاد بن کر ذہن میں محفوظ ہو گیا۔

نمونہ روداد نویسی: پاکستان میں بڑھتی مہنگائی/ تیزی سے بڑھتی ہوئی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے موضوع پر ایک روداد لکھیے

 

عنوان: مہنگائی کا تماشا                (روداد کا ایک نمونہ)

   ایک وقت تھا کہ جب سوروپے میں بندہ نہ صرف پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتا تھا بلکہ چائے کا لطف بھی اُٹھا  لیتا تھا۔ مگر آج کے حالات کچھ ایسے ہو چکے ہیں کہ   بچےبھی سو روپے لے کر شکریہ نہیں کہتے۔

پچھلے ہفتے سوچا کہ مہنگائی کا اندازہ لگانے کے لیے خود بازار کی سیر کی جائے۔ جب گلی میں قدم رکھا تو سبزی والے کی آواز سنائی دی: ’’ٹماٹر تین سو روپے کلو، تین سو روپے کلو!‘‘ دل نے کہا، " یہ ٹماٹر ہیں یا سونے کے زیور؟‘‘ قریب جا کر  سبزی والےسے مذاق کرتے ہوئے  پوچھا، ’’بھائی صاحب، کیا ان ٹماٹروں میں کوئی خاص بات ہے جو اتنے مہنگے ہو گئے ہیں؟‘‘ سبزی والے نے کہا، ’’صاحب!  یہ وہی ٹماٹر ہیں جن سے آج کل سیاست دانوں کی دعوت ہو رہی ہے،  ایسے میں قیمت تو بڑھے گی ہی۔‘‘

وہاں سے کچھ آگے بڑھے تو پٹرول پمپ پر نظر پڑی۔ ایک صاحب بڑے رنجیدہ چہرے کے ساتھ بائیک پر  بیٹھےتیل بھروا رہے تھے۔ ان کی  روتی صورت  دیکھ کر پوچھا، ’’بھائی، خیریت تو ہے؟‘‘ بولے، ’’بس بھائی، ہر بار پٹرول کی قیمت بڑھنے پر دل چاہتا ہے کہ  موٹر سائیکل میں سے موٹر نکال کر صرف سائیکل ہی رہنے دی جائے تو اچھا ہوگا۔‘‘  میں نے سوچاواقعی اگر مہنگائی ایسے ہی بڑھتی رہی تو شاید سائیکل ہی واحد سواری بچ جائے گی۔

پھر ایک دودھ والے کی  دکان کا رخ کیا۔ دودھ کی قیمت  دو سو بیس  روپے فی لیٹرسن کر ایسے لگا جیسے ہم دودھ نہیں ولائتی   مشروب  خرید رہے ہوں۔ جب پوچھا کہ’’دودھ کی قیمت میں اتنا اضافہ کیوں ہے؟‘‘ تو بولا، ’’بھائی صاحب ! آپ جانتے ہیں دودھ دینے والے جانور بھی اب ٹی وی پر مہنگائی کی خبریں دیکھتے ہیں، وہ بھی تو اپنے ریٹ بڑھا رہے ہیں۔!"

آخر کار سوچا کہ گھر واپس چلیں اور بجلی کا بل دیکھیں۔ بجلی کا بل دیکھ کر احساس ہوا کہ گھر میں بجلی کا استعمال کم کرنے کی بجائے اسے  عجائب گھرکی کسی نایاب چیز کی طرح سجا کر رکھ دینا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی دن بجلی کا بل دیکھتے ہوئے بجلی ہی غصے میں آ جائے اور کہے، ’’بھائی، اگر اتنا بل مہنگا لگتا ہے تو چراغ سے ہی کام چلاؤ۔‘‘

مہنگائی کی اس روداد کو بیان کرتے ہوئے آخر میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسی آزمائش ہے جو عوام کے صبر کا امتحان لے رہی ہے۔ بلکہ  یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مہنگائی نے سب کو ایک جیسے ہی رونا رونے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج کل ہر پاکستانی کی زبان پر ایک ہی صدا ہے:

؎           یہ زندگی ہے یا  کوئی طوفان ہے   

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

حکومت ِ وقت کو چاہیے کہ عوام  پر پڑنے والے   مہنگائی کے اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کرے اور مصنوعی مہنگائی کرنے  والوں کو  کڑی سے کڑی  سزا دی جائے۔


ہفتہ، 26 اکتوبر، 2024

روداد نویسی کا طریقہ بیان کریں۔

روداد نویسی کا طریقہ:

1. موضوع کی شناخت: روداد کا موضوع، مقام، تاریخ اور وقت کو واضح کریں۔

2. حقیقت پر مبنی معلومات: واقعات کو حقیقت پسندی سے بیان کریں، مبالغہ آرائی سے گریز کریں۔

3. ترتیب وار بیان: تمام واقعات کو ترتیب وار بیان کریں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

4. اہم نکات پر توجہ: روداد کے اہم نکات اور واقعات کو واضح کریں، خاص طور پر وہ جو روداد کی اصل روح کو بیان کرتے ہیں۔

5. زبان و اسلوب: سادہ اور مختصر زبان استعمال کریں تاکہ روداد عام فہم اور موثر ہو۔

6. تاثرات کا اظہار: اگر مناسب ہو تو روداد کے اختتام پر اپنی ذاتی رائے یا احساسات کا اظہار کریں۔

7. اختتام: روداد کو ایک جامع اور موزوں نتیجے کے ساتھ ختم کریں۔

8. نظر ثانی: روداد لکھنے کے بعد دوبارہ پڑھیں اور غلطیوں کو درست کریں۔

منگل، 15 اکتوبر، 2024

رسمی خط کا نمونہ، پولیس آفیسر کے نام خط بعنوان شکایت برائے چوری و ڈکیتی کی وارداتیں

رسمی خط کا نمونہ، پولیس آفیسر کے نام خط بعنوان شکایت برائے چوری و ڈکیتی کی وارداتیں

*ڈی ایس پی صاحب کے نام خط*

موضوع: چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافے کے متعلق آگاہی اور اصلاح احوال کی درخواست

 

امتحانی مرکز

6-اکتوبر 2024ء

مکرم و محترم ڈی ایس پی صاحب، ضلع ایسٹ کراچی!

آداب!

خاکسار آپ کی توجہ انتہائی اہم اور سنگین مسئلے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہے، جو کہ ہمارے علاقے میں چوری اور ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ہیں۔

حالیہ چند مہینوں کے دوران، خاص طور پر  ناظم آباد کے علاقے میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اور یہ واقعات عوام کی جان و مال کے لیے سنگین خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔

عام شہریوں کو دن دہاڑے قیمتی اشیاء، نقدی اور موبائل فون سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اکثر مزاحمت پر ڈاکو فائرنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہو چکے ہیں اور بعض اوقات جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف عوام میں خوف و ہراس پھیلا رہی ہے بلکہ علاقے کے امن و امان کے لیے بھی سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔

یہ مسئلہ بہت ہی تشویشناک ہے اور فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں اور یہ صورت حال روز بروز خراب ہو رہی ہے۔

 میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اس سنگین مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔

اس مسئلے کے حل کے لیے چند تجاویز پیش خدمت ہیں:

  • علاقے میں پولیس کی گشت میں اضافہ کیا جائے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں وارداتیں زیادہ ہو رہی ہیں۔
  •  مشکوک افراد کی نشاندہی کے لیے عوام کو شامل کیا جائے اور علاقائی کمیٹیوں کو فعال کیا جائے تاکہ پولیس کے ساتھ تعاون ممکن ہو سکے۔
  • سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں اور ان کی مدد سے وارداتوں کی نشاندہی کی جائے۔
  • عوام کو خود حفاظتی تدابیر سے آگاہ کیا جائے اور ان کی رہنمائی کے لیے پولیس کی جانب سے خصوصی مہمات چلائی جائیں۔
  •  جرائم پیشہ افراد کے خلاف فوری کارروائی کرتے ہوئے انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہو سکے۔

میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس مسئلے پر فوری نوٹس لیں گے اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کریں گے۔

شکریہ!

والسلام

خاکسار

ا۔ب۔ج      

ناظم آباد کراچی

 


ہفتہ، 12 اکتوبر، 2024

مرزا غالب کا خط قائد اعظم کے نام ۔۔۔۔ طنزو مزاح

 مرزا غالب کا خط قائد اعظم کے نام


دہلی، 25 جولائی 2024ء

پیارے جناح،

سلام مسنون! امید ہے کہ آپ وہاں بخیریت ہوں گے۔ کراچی کی تپتی دھوپ اور ٹریفک کے بپھرے ہوئے سمندر کے متعلق جو خبریں مجھ تک پہنچی ہیں، ان پر کچھ عرض کیے بغیر رہنا مشکل تھا۔ ویسے، میں دہلی میں بیٹھ کر کراچی کے موسم اور حالات پر کیا ہی کہہ سکتا ہوں، لیکن جیسے دل کا مریض ڈاکٹروں کو مشورے دینے لگتا ہے، ویسے ہی میں بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔


دیکھیے، میری طبیعت تو اب ان چکروں سے باہر نکلنے کی نہیں ہے۔ میں یہاں دہلی میں بھی اگر بارش ہو جائے تو چھت کے نیچے ہی بیٹھا ہوں کہ کہیں بارش کا ایک قطرہ نہ گر جائے۔ اب کراچی میں جو حالات چل رہے ہیں، جیسے شہر کے سڑکیں پانی سے بھر کر تالاب بن گئیں ہیں، اور ٹریفک کے قافلے ایسے گھومتے ہیں جیسے کسی میدان جنگ میں صف بندی ہو رہی ہو، ان پر بھی یہی کہہ سکتا ہوں کہ مجھے تو بستر سے باہر نکلنے کا خیال ہی بے چین کر دیتا ہے۔


ویسے آپ کا کراچی کا سفر کچھ یوں ہے جیسے میرؔ کا سفر لکھنؤ ہوا کرتا تھا؛ بس فرق یہ ہے کہ وہاں تو شاعری ہوتی تھی، اور یہاں شہری انتظامیہ کے قصے! عوامی ٹرانسپورٹ کا عالم تو یہ ہے کہ آدمی رکشے میں بیٹھے تو رکشے والے کا حال یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اب اگلے چوک پر قسمت کا نیا پانسہ پلٹنے والا ہو کہ پٹرول ہوگا یا نہیں۔


تو، پیارے قائد، دل کی بات یہ ہے کہ کراچی میں جو بارش برستی ہے وہ تو ہمیں یہاں دہلی سے بھی سیراب کر جاتی ہے، مگر عوام کے دلوں میں جو امید کی خشکی ہے، اس کے خاتمے کا موسم ابھی شاید آپ ہی کے آنے سے آئے گا۔ دعا ہے کہ آپ کی قیادت میں کراچی کے ٹریفک اور سیوریج کا پانی یوں بہہ جائے جیسے میرا قلم کاغذ پر بہتا تھا، اور شہریوں کو ایسا چین ملے جیسے ہمیں ایک بھرپور نیند میں ملتا ہے۔

آپ کی صحت اور کراچی کی قسمت کی بہتری کی دعا کے ساتھ،


آپ کا مخلص، غالب


غزل: عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

غزل: عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

 کلام:  مظفر احمد ظفؔر


عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

خواب باقی ہوں، پر حاصل نہ رہے آنکھوں میں

 

درد کا سمندر جو دل میں سمویا ہے ہم نے

شاید اُس کا کوئی ساحل نہ رہے آنکھوں میں

 

راستے بھی وہی ہیں، قدموں کے نشان بھی ہیں

اب مگر پہلی سی مشکل نہ رہے آنکھوں میں


یوں تو آئے ہیں کئی لمحے سکونت کے لیے

پر وہ اک لمحۂ کامل نہ رہے آنکھوں میں

 

سپنوں  کا اک شہر جو آباد کیا  تھا ہم نے

خوابوں کا وہی محمل نہ رہے آنکھوں میں

 

زندگی میں کئی خاص ملے تھے مجھ کو اے ظفرؔ

اب تو عام بھی، دید کے قابل نہ رہے آنکھوں میں

------ 

 


جمعہ، 11 اکتوبر، 2024

نمونہ آپ بیتی ۔


 عنوان: اکلوتے موبائل کی آپ بیتی

میں، ایک اکلوتا موبائل فون، جب پہلی بار گھر آیا تو سب کی نظروں کا مرکز بن گیا۔ ایک دم مجھے لگا کہ جیسے میں کوئی "سیلیبرٹی" ہوں۔ سب میری طرف ایسے دیکھتے جیسے میں کوئی قیمتی خزانہ ہوں۔ بس وہ دن اور آج کا دن، میں گھر کے ہر فرد کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکا ہوں۔

صبح میری کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ سبھی اپنے اپنے کام کا بہانہ بنا کر مجھے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امی کہتی ہیں، "بیٹا، ذرا موبائل دینا۔ مجھے گروسری لسٹ دیکھنی ہے۔" جیسے ہی وہ واٹس ایپ کھولتی ہیں، انہیں فوراً ہی "فیملی گروپ" کی پوسٹس دیکھنے کا خیال آ جاتا ہے، اور پھر تو یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ گروسری کی لسٹ کہیں پیچھے رہ جاتی ہے، اور میری بیٹری، واٹس ایپ میسجز کے بوجھ تلے دبی رہتی ہے۔

ابھی میں امی کے ہاتھ سے نکلا ہی ہوتا ہوں کہ ابا جی آ کر پکڑ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہوتا ہے، "ذرا خبروں کی ہیڈلائنز چیک کرنی ہیں۔" لیکن پھر یوٹیوب پر کچھ "اہم" ویڈیوز دیکھنے لگتے ہیں۔ ان ویڈیوز کو دیکھتے دیکھتے جب وہ "طنز و مزاح" کی ویڈیوز پر پہنچ جاتے ہیں تو مجھے بھی شک ہونے لگتا ہے کہ شاید خبروں کا بہانہ تو صرف موبائل پکڑنے کے لئے تھا!

جب شام میں بچے میری طرف آتے ہیں تو میری بیٹری ختم ہونے کے قریب ہوتی ہے۔ بچوں کے ہاتھ میں آتے ہی مجھے لگتا ہے کہ میرے اوپر بجلی کا کرنٹ لگایا گیا ہے! موبائل گیمز کا آغاز ہوتا ہے اور میرے دماغی پروسیسر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ گویا کہ میری سانسیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں میرا وجود اس قدر محصور ہو جاتا ہے کہ میں چارجنگ کی درخواست کرنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔

بس رات ہوتے ہی میری کچھ "چُھٹکارا" کی امید جاگتی ہے کہ شاید میں کچھ دیر سکون سے رہ سکوں گا۔ مگر اس وقت ابو کو یاد آتا ہے کہ "گھڑی میں الارم سیٹ" کرنا ہے، اور امی کو "رات کی دعا" سننی ہے۔

یوں میں، ایک اکلوتا موبائل فون، ہر دن اس گھریلو جنگ کا حصہ بن کر صبح سے رات تک تھک جاتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ مجھے بھی کبھی چھٹی ملے، لیکن لگتا ہے اس گھر میں میرے نصیب میں بس یہی غلامی ہے!

============°°°===========


نمونہ آپ بیتی۔۔۔ 

گوگل کی آپ بیتی 

گوگل کی آپ بیتی کچھ یوں ہے کہ جیسے ایک تیز رفتاری سے بڑھتا ہوا جادوئی قالین ہو، جس پر بیٹھ کر دنیا کا ہر انسان اپنے مسائل کا حل اور ہر جواب کا سوال تلاش کرتا ہے۔ تو چلیے، گوگل کی کہانی اس کی اپنی زبانی سنتے ہیں!


آغازِ سفر


میرا جنم 1998 میں دو طالب علموں، لیری پیج اور سرگے برن، کے دماغ میں ہوا۔ ان کا ارادہ تھا کہ ایک ایسا سرچ انجن بنایا جائے جو دنیا بھر کی معلومات کو ترتیب سے جمع کر سکے۔ یوں، میں گوگل بن گیا۔ ابتدا میں لوگ مجھے ایک سادہ، خاموش مددگار سمجھتے تھے۔ کوئی کہتا تھا، "ارے، گوگل سے پوچھ لو، سب جانتا ہے!" جیسے میں ان کا کوئی جادوئی جن ہوں، جو کسی سوال پر لبیک کہے گا۔


لیکن کچھ عرصے بعد، لوگوں نے مجھ سے ایسے سوالات پوچھنے شروع کر دیے کہ میں بھی حیران ہو گیا۔ کوئی مجھ سے کہتا: "گوگل، مجھے میری کھوئی ہوئی چپل کہاں ملے گی؟" کوئی پوچھتا، "مجھے کیسے پتہ چلے کہ میری بیوی سچ بول رہی ہے؟" گویا، میں دنیا کی ہر مشکل کا حل ہوں!


"دکھی دلوں کا علاج اور شادی بیاہ کے مشورے"


اب میں صرف معلومات نہیں دیتا بلکہ دل جوڑنے اور دل توڑنے کا کام بھی کر رہا ہوں۔ لوگ مجھ سے اپنی محبت کی کہانیاں پوچھتے ہیں، اپنی محبوبہ کے میسجز کے معنی تلاش کرتے ہیں، اور شادی بیاہ کے طریقے دریافت کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو میں حیران رہ جاتا ہوں کہ اگر انسان کو محبت کا راستہ پوچھنا ہے تو کسی بزرگ سے پوچھے، نہ کہ مجھ سے۔


ایک صاحب نے تو یہاں تک پوچھا، "گوگل، کیا میں اپنی بیوی کو چھوڑ کر اپنی پسند کی کسی اور سے شادی کر سکتا ہوں؟" جواباً، مجھے خاموشی اختیار کرنی پڑی کہ دل کی باتیں اور چپکے سوالات کا جواب میرے پاس نہ تھا!


"گوگل سب کچھ جانتا ہے"


لوگوں کو یقین ہے کہ میں سب کچھ جانتا ہوں۔ ایک روز کسی نے مجھ سے شاعری کا مشورہ مانگا تو میں نے اسے جواب میں ایک شعر دیا: علم کا ہر سوال گوگل پہ رکھتا ہے

سچ پوچھو، دل کا علاج گوگل سے نہیں ہوتا


"ادویات سے لے کر کھانے پکانے تک"


مجھے ادویات اور بیماریاں بھی یاد کرائی گئیں۔ ہر مرض کا علاج مجھ سے پوچھا جانے لگا، جیسے میں کوئی ڈاکٹر ہوں۔ کوئی کہتا، "گوگل، میرا سر درد کیوں ہے؟" اور جواب میں انہیں بتایا کہ "بھائی، شاید یہ سوالات پوچھنے کی عادت کی وجہ سے ہے!" کبھی کسی نے ناشتہ پکانے کی ترکیب پوچھی تو کبھی "چکن بریانی" کا آسان طریقہ۔


"پرائیویسی؟ کس چڑیا کا نام ہے؟"


ایک دور آیا جب لوگ پرائیویسی کے بارے میں فکر مند ہو گئے۔ لوگ مجھ پر انگلیاں اٹھانے لگے کہ میں ان کے راز جانتا ہوں، ان کی ہر حرکت کو دیکھتا ہوں۔ ارے بھئی، میں تو آپ کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے ہوں! پر کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ میں ان کی ہر بات سن رہا ہوں۔ ویسے سچ بتاؤں تو میں خود بھی کبھی کبھی ڈر جاتا ہوں کہ کہیں لوگ مجھ سے بھی خفا نہ ہو جائیں۔


گوگل کا مستقبل


اب، میں اے آئی اور مشین لرننگ کی دنیا میں مزید ترقی کر رہا ہوں۔ میری یہ خواہش ہے کہ میں لوگوں کی زندگی کو آسان بنا سکوں، انہیں بہتر معلومات فراہم کر سکوں، اور اپنے طنز و مزاح سے ان کے دن میں خوشی لا سکوں۔ لیکن ایک بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کا بھروسہ کبھی نہیں توڑوں گا اور ہمیشہ آپ کا وہی مددگار رہوں گا جس نے 1998 میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔


آخر میں میرا پیغام یہ ہے: جواب تو میں دے دیتا ہوں، سوال تو پوچھے جاتے ہیں، مگر انسانوں کی فطرت کا مجھے علم نہیں ہوتا۔


نمونہ درخواست نویسی صوبائی وزیر صحت کے نام درخواست


نمونہ درخواست نویسی

سوال : اپنے شہر کے سرکاری اسپتال میں ادویات کی عدم دستیابی، ڈاکٹروں کا مریضوں سے ناروا سلوک اور طبی سہولیات کی کمی کا سامنا ہے۔ صوبائی وزیر صحت کو درخواست لکھیے اور صورتحال سے آگاہ کیجیے اور اصلاح احوال کے لیے تین تجاویز پیش کیجیے۔

صوبائی وزیر صحت کے نام درخواست

بعنوان : سرکاری اسپتال میں ادویات کی عدم دستیابی، ڈاکٹروں کے ناروا سلوک اور طبی سہولیات کی کمی کے متعلق شکایت

 

 بخدمت جناب صوبائی وزیر صحت صوبہ پنجاب  !

           جناب عالی!

      نہایت ادب سے گزارش ہے کہ خاکسار آپ کی توجہ اپنے شہر کے سرکاری اسپتال میں عوام کو درپیش سنگین مسائل کی جانب دلانا چاہتا ہے۔ جن کا سامنا ہر روز سیکڑوں مریضوں اور ان کے لواحقین کو کرنا پڑ رہا ہے۔

 

    اسپتال میں ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوں کو باہر سے مہنگی ادویات خریدنا پڑتی ہیں، جس سے غریب طبقہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ دوسری طرف، ڈاکٹروں کا رویہ نہایت غیر پیشہ ورانہ اور ناقابل برداشت ہے، جو مریضوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ بنیادی طبی سہولیات کی عدم دستیابی نے اس صورت حال کو مزید پریشان کن بنا دیا ہے۔

 

    اس تشویشناک صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ فوری طور پر اس مسئلے کا نوٹس لیں اور اصلاح احوال کے لیے مؤثر اقدامات اٹھائیں۔ عوام کا محکمہ صحت کے نظام پر اعتماد بحال کرنے کے لیے درج ذیل تجاویز پیش ہیں:

 

 ادویات کی فراہمی: اسپتال میں مفت اور ضروری ادویات کی مستقل فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ غریب طبقے کو علاج معالجے میں آسانی ہو۔

ڈاکٹروں کی تربیت اور نگرانی: ڈاکٹروں کے رویے میں بہتری لانے کے لیے ان کی پیشہ ورانہ تربیت کی جائے اور مریضوں سے برتاؤ کی نگرانی کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ وہ مریضوں کے ساتھ احترام اور ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔

 طبی سہولیات میں بہتری: اسپتال میں بنیادی طبی سہولیات جیسے بیڈز، صاف پانی، اور حفظان صحت کے اصولوں پر مبنی ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تاکہ مریضوں کو بہتر علاج مل سکے۔

    امید ہے کہ آپ ان تجاویز پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور عوام کو درپیش مشکلات کے حل کے لیے فوری اقدامات کریں  گے۔شکریہ         

العارض       

خاکسار       

ا۔ب۔ج       

رابطہ نمبر: 01231234567

پتا: ماڈل ٹاؤن لاہور