اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ۔۔۔ ..... Best of LUCK in your Final Board Exams AKUEB 2025..... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

اتوار، 15 دسمبر، 2024

نظم بعنوان: فلسطین کی پکار

  نظم بعنوان

 فلسطین کی پکار 

عقل مند بھی حیراں ہیں، ان حیوانوں پر 

سفاکی نے حدیں پار کیں معاہدوں کے بہانوں پر


یہ دھرتی کانپتی ہے بموں کی برسات سے

برا وقت آیا ہے فلسطین کی معصوم جانوں پر  


لشکر فیل نے خون کی ہولی کھیلی ہے  

قیامت برپا کی گئی ہے غزہ کے میدانوں پر  


بغل میں ہے چھری اور منہ میں رام رام 

سب حیران ہیں ان جہل کے ایوانوں پر  


  اب کسے پکاریں، کس سے فریاد کریں محبؔ 

بند ہو گئے سبھی در، انصاف کے، مسلمانوں پر


شاعر: محب احمد 

جماعت دہم بی

منگل، 3 دسمبر، 2024

نظم بعنوان: خاموش کیوں ہو؟ کلام: مظفر احمد ظفر

 نظم بعنوان:

 خاموش کیوں ہو؟

کلام: 

مظفر احمد ظفرؔ 

کر کے لہجہ اپنا نرم بولتے ہیں

مگر الفاظ میں دم بولتے ہیں


حال دل اپنا ، ضرور سناتے مگر

غموں کو ہم اپنے، کم بولتے ہیں


جنہیں مطلب نہ ہو دل کی باتوں سے

ہم ایسے ہم سخن سے کم بولتے ہیں


لبوں پہ لگی ہے مہر ، لیکن دل ہے گویا

لفظوں کی بجائے، چشمِ نم بولتے ہیں


دو چار شعر کہہ کے جب، خاموش ہو گئے 

وہ مسکرا کے بولے، آپ بہت کم بولتے ہیں


جہاں خاموشیاں لازم ہوں ظفرؔ

وہاں پہ صرف ، زخم بولتے ہیں

جمعرات، 21 نومبر، 2024

غزل: مظفر احمد ظفر لگے ہے دل لگ گیا، مگر لگے گا نہیں

 

غزل:

لگے ہے دل لگ گیا، مگر لگے گا نہیں

کلام: مظفر احمد ظفر

 

لگے ہے دل لگ گیا، مگر لگے گا نہیں

جو زخم گہرا تھا، بھر گیا مگر لگے گا نہیں

 

وفا کی بات کریں یا جفائیں یاد کریں

یہ قصہ اب ختم ہوا، مگر لگے گا نہیں

 

تمام عمر خوشی کی طلب میں کٹ تو گئی

پوری ہوگی اب تمنا، مگر لگے گا نہیں

 

حالِ دل، آنکھوں نے سب بیاں کر دیا

لبوں پہ بات رکی، پر کہا، مگر لگے گا نہیں

 

نہ آنکھ بند کرو، یہ نہ ہو کہ دھوکہ کھاؤ

جو پاس ہے  وہ معتبرتھا، مگر لگے گا نہیں

 

وفا کی بات  ختم ہوئی ،   یاں سب بدل گئے

جو آج وعدہ کرے نباہ، مگر لگے گا نہیں


یہ عشق ایسا سمندر ہے، ڈوبنا شرط ہے

بچاؤ خود کو،  کوئی کنارہ مگر لگے گا نہیں

 

کہاں سے لاؤں وہ دنیا، سکوں جہاں پہ ملے

یہ شہر شہر کا عالم ہے، بسیرا  مگر لگے گا نہیں

 

دل کا حال سنائیں کسے، کسے بتائیں ظفرؔ

ہم درد کوئی ہے،    بچا مگر لگے گا نہیں

 -----

اتوار، 10 نومبر، 2024

مناجات ظفر حمدیہ نظم (مثنوی طرز)

مناجات ظفرؔ

حمدیہ نظم (مثنوی طرز)

 

نام لیتا ہوں اس کا، جو بِن مانگے دے

کرے ہر دم رحم، سب دعائیں سُنے

 

سب تعریفیں ہیں تیری، اے ربِ جہاں

تو ہے پروردگار، سب تیرا ہی بیاں

 

خوباں ہے تو ، ہے تو سب سے جدا

تو ہی خالق کل ،  مالکِ   روزِ جزا  

 

عبادت کریں تری، ہم صبح و شام

ترے در پہ یارب، سدا ہمارا قیام

 

دکھا ہم کو رستہ، جو سیدھا ہے خاص

وہی جن پہ انعام، تیرا ہے پاس

 

بچا ہم کو ان سے، جو ہیں ترے زیرِ غَضَب

بھٹکنے سے رکھ دور، اے میرے رَب 

 

ظفؔر کی ہے دعا، اے میرے خدا

مالکِ کون و مکاں، سن لے  یہ التجا

(آمین) 

کلام : مظفر احمد ظفؔر


اتوار، 27 اکتوبر، 2024

نمونہ روداد نویسی ، ریل گاڑی کے سفر کی روداد

 

*لاہور تا کراچی کے سفر ریل کی روداد نویسی* 

گزشتہ ماہ  کراچی جانے کا اتفاق ہوا ۔ یہ سفر ہم نے ریل کار کے ذریعے کیا تھا اس کے سفر کی روداد کچھ یوں پیش ہے۔ 

لاہور سے کراچی روانہ ہونے کا وقت ہوا تو پہلے ہی مرحلے میں ٹرین لیٹ تھی۔ کوئی کہہ رہا تھا، "بھائی، یہ تو سدا کا معمول ہے!" ہم نے دل میں کہا، "اگر لیٹ نہ ہو تو کیا یہ ہماری قومی ٹرین کہلائے؟" خیر، دو گھنٹے انتظار کے بعد جب ٹرین آئی تو سب مسافر ایسے لپکے جیسے یہ کوئی نایاب خزانہ ہو۔

لاہور کا وہ سرد موسم اور خوشبو دار ہوا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جیسے ہی ٹرین روانہ ہوئی، ہمیں ایک شعر یاد آیا:

 ہم سفر میں بھی غمِ ہجر نہ چھوڑیں گے

اک تماشا ہے جو دکھاتے رہیں گے ہم

راہ میں سر سبز کھیت، لاہور کے باغ، اور پنجاب کی خوبصورتیاں ایک کے بعد ایک پیچھے چھوٹتی گئیں۔ ہمارے ساتھ ایک بزرگ بیٹھے تھے جو بار بار یہی دہراتے کہ "کراچی میں وہ بات کہاں!" ہم نے کہا، "جناب، کراچی کی اپنی ہی دنیا ہے۔ وہاں زندگی کی دوڑ ہے، جو رکتی نہیں!"

ہر چھوٹے اسٹیشن پر جیسے ہی ٹرین رکی، ایک ہجوم چائے، سموسے، اور جوس لے کر چڑھ آیا۔ اور مسافر ایسے چمٹے جیسے کھانا اور سفر کا ایک ہی ٹکٹ تھا۔ ایک صاحب نے چائے پی اور پھر جیسے فلسفیانہ گفتگو شروع کر دی: "چائے ہو تو ایسی ہو کہ لاہور یاد آئے اور کراچی بھول جائے۔" ہم نے ہنستے ہوئے کہا، "بھائی، یہ چائے آپ کے پیسے کی مار ہے، یادیں اور بھولنا ہمارے بس میں کہاں!"

جیسے ہی رات آئی، خراٹوں کا کنسرٹ شروع ہو گیا۔ ایک طرف ایک بزرگ صاحب تھے جن کے خراٹے ایسے تھے جیسے طوفان کی زد میں ہوں۔ ہمارے ایک ساتھی مسافر نے کہا، "بھائی، یہ خراٹے کسی سائلنسر کے بغیر ہیں!" دوسرا بولا، "اور کراچی پہنچنے تک ایسے ہی رہیں گے!" یوں ہنسی مذاق کے دوران کچھ لوگ سو گئے اور کچھ نے اس خراٹوں کے کنسرٹ کا ہی مزہ لیا۔

جب کراچی کے قریب پہنچے تو فضا میں نمی اور سمندر کی خوشبو محسوس ہونے لگی۔ جیسے ہی ٹرین رکی، ایک عجیب سا رش تھا۔ ایک بزرگ بولے، "کراچی والے بہت مصروف لوگ ہیں، سلام تک کا وقت نہیں!" جواب آیا، "کراچی والوں کی زندگی سلام کے بغیر بھی تیز چلتی ہے!"

کراچی کی فضا میں قدم رکھتے ہی دل خوش ہوا، مگر سفر کی تھکان اور ہنسی مذاق کی یادیں رہ گئیں۔

 ایک  شعر دل میں گونجا:

 یہ سفر کی تھکان ہے یا منزل کا نشہ 

دل کہتا ہے، نکلنا ہے اسی رہگزر پہ دوبارہ 

یوں، یہ سفر لاہور سے کراچی تک کی ایک خوش گوار یاد بن کر ذہن میں محفوظ ہو گیا۔