اردو نوٹس برائے جماعت نہم و دہم کے اس بلاگ میں آپ کو خوش آمدید ..... EVERY DAY IS TEACHERS DAY...... ۔۔۔

جماعت نہم

تصاویر برائے اردو تخلیقی تحریر

فیچر پوسٹ

روز مرہ، محاورہ، ضرب المثل

روزمرہ، محاورہ اور ضرب المثل  روزمرہ،   محاورے اور ضرب الامثال کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب...

منگل، 31 دسمبر، 2024

نظم بعنوان: نئے سال کی دعا

 نظم بعنوان: نئے سال کی دعا 

زباں پہ ہماری،  سدا ترا نام ہو، اے خدا

تری رحمتوں کا نزول،  مدام ہو، اے خدا


سبق جو ملا، وہی رہنما بنے ہر قدم

ہر راہ پہ آسانی کا انعام ہو، اے خدا


نیا  سال لائے،  تیرے  کرم  کا  پیام نور

ہر خواب کی تعبیر کا احرام ہو، اے خدا


صحت بھی ہو، علم و عمل کا نصیب ہو

ہر کام میں کامیابی کا، اکرام ہو، اے خدا


مصیبتوں سے بچا، دکھوں سے رِہا بھی کر

دنیا میں نہ کہیں مچا کہرام ہو، اے خدا 


ہر پل رہے، تیرے شکر کا، احساس جاگتا

دلوں میں محبتوں کا، قیام ہو، اے خدا


ظفر کریں عہد وقت کی قدر کا لحاظ

ہر دل کو تری یاد کا پیغام ہو، اے خدا


(ایم۔اے ظفر)

غزل: جو میرا تھا، اب بھی تو ہو سکتا ہے حسن کلام: مظفر احمد ظفر

 غزل: جو میرا تھا، اب بھی تو ہو سکتا ہے

 حسن کلام: مظفر احمد ظفر 


جو میرا تھا، اب بھی تو ہو سکتا ہے

گر یہ معجزہ ہوگا، تو ہو سکتا ہے


افق پر ہیں بادل، گھٹائیں ہیں گھنگور

یہ منظر بدل جائے، تو ہو سکتا ہے


یہ جو چاہت کا دریا ہے، بہت گہراہے

پر کنارہ نظر آئے، پار تو ہو سکتا ہے


جو خواب میں روشن تھی امید کی کرن

وہ جگنو چمک جائے، تو ہو سکتا ہے


جو تقدیر نے لکھا ہی نہیں، میری قسمت میں

وہ اک لکیر ہتھیلی پہ آجائے، تو ہو سکتا ہے


دل کی دنیا اسی امید پہ قائم ہے ظفرؔ

نصیب مسکرا جائے، تو ہو سکتا ہے

اتوار، 15 دسمبر، 2024

نظم بعنوان: فلسطین کی پکار

  نظم بعنوان

 فلسطین کی پکار 

عقل مند بھی حیراں ہیں، ان حیوانوں پر 

سفاکی نے حدیں پار کیں معاہدوں کے بہانوں پر


یہ دھرتی کانپتی ہے بموں کی برسات سے

برا وقت آیا ہے فلسطین کی معصوم جانوں پر  


لشکر فیل نے خون کی ہولی کھیلی ہے  

قیامت برپا کی گئی ہے غزہ کے میدانوں پر  


بغل میں ہے چھری اور منہ میں رام رام 

سب حیران ہیں ان جہل کے ایوانوں پر  


  اب کسے پکاریں، کس سے فریاد کریں محبؔ 

بند ہو گئے سبھی در، انصاف کے، مسلمانوں پر


شاعر: محب احمد 

جماعت دہم بی

منگل، 3 دسمبر، 2024

نظم بعنوان: خاموش کیوں ہو؟ کلام: مظفر احمد ظفر

 نظم بعنوان:

 خاموش کیوں ہو؟

کلام: 

مظفر احمد ظفرؔ 

کر کے لہجہ اپنا نرم بولتے ہیں

مگر الفاظ میں دم بولتے ہیں


حال دل اپنا ، ضرور سناتے مگر

غموں کو ہم اپنے، کم بولتے ہیں


جنہیں مطلب نہ ہو دل کی باتوں سے

ہم ایسے ہم سخن سے کم بولتے ہیں


لبوں پہ لگی ہے مہر ، لیکن دل ہے گویا

لفظوں کی بجائے، چشمِ نم بولتے ہیں


دو چار شعر کہہ کے جب، خاموش ہو گئے 

وہ مسکرا کے بولے، آپ بہت کم بولتے ہیں


جہاں خاموشیاں لازم ہوں ظفرؔ

وہاں پہ صرف ، زخم بولتے ہیں

جمعرات، 21 نومبر، 2024

غزل: مظفر احمد ظفر لگے ہے دل لگ گیا، مگر لگے گا نہیں

 

غزل:

لگے ہے دل لگ گیا، مگر لگے گا نہیں

کلام: مظفر احمد ظفر

 

لگے ہے دل لگ گیا، مگر لگے گا نہیں

جو زخم گہرا تھا، بھر گیا مگر لگے گا نہیں

 

وفا کی بات کریں یا جفائیں یاد کریں

یہ قصہ اب ختم ہوا، مگر لگے گا نہیں

 

تمام عمر خوشی کی طلب میں کٹ تو گئی

پوری ہوگی اب تمنا، مگر لگے گا نہیں

 

حالِ دل، آنکھوں نے سب بیاں کر دیا

لبوں پہ بات رکی، پر کہا، مگر لگے گا نہیں

 

نہ آنکھ بند کرو، یہ نہ ہو کہ دھوکہ کھاؤ

جو پاس ہے  وہ معتبرتھا، مگر لگے گا نہیں

 

وفا کی بات  ختم ہوئی ،   یاں سب بدل گئے

جو آج وعدہ کرے نباہ، مگر لگے گا نہیں


یہ عشق ایسا سمندر ہے، ڈوبنا شرط ہے

بچاؤ خود کو،  کوئی کنارہ مگر لگے گا نہیں

 

کہاں سے لاؤں وہ دنیا، سکوں جہاں پہ ملے

یہ شہر شہر کا عالم ہے، بسیرا  مگر لگے گا نہیں

 

دل کا حال سنائیں کسے، کسے بتائیں ظفرؔ

ہم درد کوئی ہے،    بچا مگر لگے گا نہیں

 -----

اتوار، 10 نومبر، 2024

مناجات ظفر حمدیہ نظم (مثنوی طرز)

مناجات ظفرؔ

حمدیہ نظم (مثنوی طرز)

 

نام لیتا ہوں اس کا، جو بِن مانگے دے

کرے ہر دم رحم، سب دعائیں سُنے

 

سب تعریفیں ہیں تیری، اے ربِ جہاں

تو ہے پروردگار، سب تیرا ہی بیاں

 

خوباں ہے تو ، ہے تو سب سے جدا

تو ہی خالق کل ،  مالکِ   روزِ جزا  

 

عبادت کریں تری، ہم صبح و شام

ترے در پہ یارب، سدا ہمارا قیام

 

دکھا ہم کو رستہ، جو سیدھا ہے خاص

وہی جن پہ انعام، تیرا ہے پاس

 

بچا ہم کو ان سے، جو ہیں ترے زیرِ غَضَب

بھٹکنے سے رکھ دور، اے میرے رَب 

 

ظفؔر کی ہے دعا، اے میرے خدا

مالکِ کون و مکاں، سن لے  یہ التجا

(آمین) 

کلام : مظفر احمد ظفؔر


اتوار، 27 اکتوبر، 2024

نمونہ روداد نویسی ، ریل گاڑی کے سفر کی روداد

 

*لاہور تا کراچی کے سفر ریل کی روداد نویسی* 

گزشتہ ماہ  کراچی جانے کا اتفاق ہوا ۔ یہ سفر ہم نے ریل کار کے ذریعے کیا تھا اس کے سفر کی روداد کچھ یوں پیش ہے۔ 

لاہور سے کراچی روانہ ہونے کا وقت ہوا تو پہلے ہی مرحلے میں ٹرین لیٹ تھی۔ کوئی کہہ رہا تھا، "بھائی، یہ تو سدا کا معمول ہے!" ہم نے دل میں کہا، "اگر لیٹ نہ ہو تو کیا یہ ہماری قومی ٹرین کہلائے؟" خیر، دو گھنٹے انتظار کے بعد جب ٹرین آئی تو سب مسافر ایسے لپکے جیسے یہ کوئی نایاب خزانہ ہو۔

لاہور کا وہ سرد موسم اور خوشبو دار ہوا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جیسے ہی ٹرین روانہ ہوئی، ہمیں ایک شعر یاد آیا:

 ہم سفر میں بھی غمِ ہجر نہ چھوڑیں گے

اک تماشا ہے جو دکھاتے رہیں گے ہم

راہ میں سر سبز کھیت، لاہور کے باغ، اور پنجاب کی خوبصورتیاں ایک کے بعد ایک پیچھے چھوٹتی گئیں۔ ہمارے ساتھ ایک بزرگ بیٹھے تھے جو بار بار یہی دہراتے کہ "کراچی میں وہ بات کہاں!" ہم نے کہا، "جناب، کراچی کی اپنی ہی دنیا ہے۔ وہاں زندگی کی دوڑ ہے، جو رکتی نہیں!"

ہر چھوٹے اسٹیشن پر جیسے ہی ٹرین رکی، ایک ہجوم چائے، سموسے، اور جوس لے کر چڑھ آیا۔ اور مسافر ایسے چمٹے جیسے کھانا اور سفر کا ایک ہی ٹکٹ تھا۔ ایک صاحب نے چائے پی اور پھر جیسے فلسفیانہ گفتگو شروع کر دی: "چائے ہو تو ایسی ہو کہ لاہور یاد آئے اور کراچی بھول جائے۔" ہم نے ہنستے ہوئے کہا، "بھائی، یہ چائے آپ کے پیسے کی مار ہے، یادیں اور بھولنا ہمارے بس میں کہاں!"

جیسے ہی رات آئی، خراٹوں کا کنسرٹ شروع ہو گیا۔ ایک طرف ایک بزرگ صاحب تھے جن کے خراٹے ایسے تھے جیسے طوفان کی زد میں ہوں۔ ہمارے ایک ساتھی مسافر نے کہا، "بھائی، یہ خراٹے کسی سائلنسر کے بغیر ہیں!" دوسرا بولا، "اور کراچی پہنچنے تک ایسے ہی رہیں گے!" یوں ہنسی مذاق کے دوران کچھ لوگ سو گئے اور کچھ نے اس خراٹوں کے کنسرٹ کا ہی مزہ لیا۔

جب کراچی کے قریب پہنچے تو فضا میں نمی اور سمندر کی خوشبو محسوس ہونے لگی۔ جیسے ہی ٹرین رکی، ایک عجیب سا رش تھا۔ ایک بزرگ بولے، "کراچی والے بہت مصروف لوگ ہیں، سلام تک کا وقت نہیں!" جواب آیا، "کراچی والوں کی زندگی سلام کے بغیر بھی تیز چلتی ہے!"

کراچی کی فضا میں قدم رکھتے ہی دل خوش ہوا، مگر سفر کی تھکان اور ہنسی مذاق کی یادیں رہ گئیں۔

 ایک  شعر دل میں گونجا:

 یہ سفر کی تھکان ہے یا منزل کا نشہ 

دل کہتا ہے، نکلنا ہے اسی رہگزر پہ دوبارہ 

یوں، یہ سفر لاہور سے کراچی تک کی ایک خوش گوار یاد بن کر ذہن میں محفوظ ہو گیا۔

نمونہ روداد نویسی: پاکستان میں بڑھتی مہنگائی/ تیزی سے بڑھتی ہوئی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے موضوع پر ایک روداد لکھیے

 

عنوان: مہنگائی کا تماشا                (روداد کا ایک نمونہ)

   ایک وقت تھا کہ جب سوروپے میں بندہ نہ صرف پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتا تھا بلکہ چائے کا لطف بھی اُٹھا  لیتا تھا۔ مگر آج کے حالات کچھ ایسے ہو چکے ہیں کہ   بچےبھی سو روپے لے کر شکریہ نہیں کہتے۔

پچھلے ہفتے سوچا کہ مہنگائی کا اندازہ لگانے کے لیے خود بازار کی سیر کی جائے۔ جب گلی میں قدم رکھا تو سبزی والے کی آواز سنائی دی: ’’ٹماٹر تین سو روپے کلو، تین سو روپے کلو!‘‘ دل نے کہا، " یہ ٹماٹر ہیں یا سونے کے زیور؟‘‘ قریب جا کر  سبزی والےسے مذاق کرتے ہوئے  پوچھا، ’’بھائی صاحب، کیا ان ٹماٹروں میں کوئی خاص بات ہے جو اتنے مہنگے ہو گئے ہیں؟‘‘ سبزی والے نے کہا، ’’صاحب!  یہ وہی ٹماٹر ہیں جن سے آج کل سیاست دانوں کی دعوت ہو رہی ہے،  ایسے میں قیمت تو بڑھے گی ہی۔‘‘

وہاں سے کچھ آگے بڑھے تو پٹرول پمپ پر نظر پڑی۔ ایک صاحب بڑے رنجیدہ چہرے کے ساتھ بائیک پر  بیٹھےتیل بھروا رہے تھے۔ ان کی  روتی صورت  دیکھ کر پوچھا، ’’بھائی، خیریت تو ہے؟‘‘ بولے، ’’بس بھائی، ہر بار پٹرول کی قیمت بڑھنے پر دل چاہتا ہے کہ  موٹر سائیکل میں سے موٹر نکال کر صرف سائیکل ہی رہنے دی جائے تو اچھا ہوگا۔‘‘  میں نے سوچاواقعی اگر مہنگائی ایسے ہی بڑھتی رہی تو شاید سائیکل ہی واحد سواری بچ جائے گی۔

پھر ایک دودھ والے کی  دکان کا رخ کیا۔ دودھ کی قیمت  دو سو بیس  روپے فی لیٹرسن کر ایسے لگا جیسے ہم دودھ نہیں ولائتی   مشروب  خرید رہے ہوں۔ جب پوچھا کہ’’دودھ کی قیمت میں اتنا اضافہ کیوں ہے؟‘‘ تو بولا، ’’بھائی صاحب ! آپ جانتے ہیں دودھ دینے والے جانور بھی اب ٹی وی پر مہنگائی کی خبریں دیکھتے ہیں، وہ بھی تو اپنے ریٹ بڑھا رہے ہیں۔!"

آخر کار سوچا کہ گھر واپس چلیں اور بجلی کا بل دیکھیں۔ بجلی کا بل دیکھ کر احساس ہوا کہ گھر میں بجلی کا استعمال کم کرنے کی بجائے اسے  عجائب گھرکی کسی نایاب چیز کی طرح سجا کر رکھ دینا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی دن بجلی کا بل دیکھتے ہوئے بجلی ہی غصے میں آ جائے اور کہے، ’’بھائی، اگر اتنا بل مہنگا لگتا ہے تو چراغ سے ہی کام چلاؤ۔‘‘

مہنگائی کی اس روداد کو بیان کرتے ہوئے آخر میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسی آزمائش ہے جو عوام کے صبر کا امتحان لے رہی ہے۔ بلکہ  یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مہنگائی نے سب کو ایک جیسے ہی رونا رونے پر مجبور کر دیا ہے۔ آج کل ہر پاکستانی کی زبان پر ایک ہی صدا ہے:

؎           یہ زندگی ہے یا  کوئی طوفان ہے   

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

حکومت ِ وقت کو چاہیے کہ عوام  پر پڑنے والے   مہنگائی کے اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے مناسب قانون سازی کرے اور مصنوعی مہنگائی کرنے  والوں کو  کڑی سے کڑی  سزا دی جائے۔


ہفتہ، 26 اکتوبر، 2024

روداد نویسی کا طریقہ بیان کریں۔

روداد نویسی کا طریقہ:

1. موضوع کی شناخت: روداد کا موضوع، مقام، تاریخ اور وقت کو واضح کریں۔

2. حقیقت پر مبنی معلومات: واقعات کو حقیقت پسندی سے بیان کریں، مبالغہ آرائی سے گریز کریں۔

3. ترتیب وار بیان: تمام واقعات کو ترتیب وار بیان کریں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

4. اہم نکات پر توجہ: روداد کے اہم نکات اور واقعات کو واضح کریں، خاص طور پر وہ جو روداد کی اصل روح کو بیان کرتے ہیں۔

5. زبان و اسلوب: سادہ اور مختصر زبان استعمال کریں تاکہ روداد عام فہم اور موثر ہو۔

6. تاثرات کا اظہار: اگر مناسب ہو تو روداد کے اختتام پر اپنی ذاتی رائے یا احساسات کا اظہار کریں۔

7. اختتام: روداد کو ایک جامع اور موزوں نتیجے کے ساتھ ختم کریں۔

8. نظر ثانی: روداد لکھنے کے بعد دوبارہ پڑھیں اور غلطیوں کو درست کریں۔

منگل، 15 اکتوبر، 2024

رسمی خط کے نمونے: پولیس آفیسر کے نام خط بعنوان شکایت برائے چوری و ڈکیتی کی وارداتیں, ٹریفک پولیس کے نام شکایتی خط، مدیر کے نام خط

رسمی خط کے چند نمونے

سوال 1: اپنے ضلع کے  پولیس آفیسر کے نام خط لکھیے جس میں اپنے علاقے میں علاقے میں چوری اور ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں  کی  شکایت  لگاتے ہوئے اصلاح ِ احوال کے لیے چند تجاویز پیش کیجیے۔

*ڈی ایس پی صاحب کے نام خط*

موضوع: چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں اضافے کے متعلق آگاہی اور اصلاح احوال کی درخواست

 امتحانی مرکز

6-اکتوبر 2024ء

مکرم و محترم ڈی ایس پی صاحب، ضلع ایسٹ کراچی!

آداب!

خاکسار آپ کی توجہ انتہائی اہم اور سنگین مسئلے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہے، جو کہ ہمارے علاقے میں چوری اور ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ہیں۔

حالیہ چند مہینوں کے دوران، خاص طور پر  ناظم آباد کے علاقے میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، اور یہ واقعات عوام کی جان و مال کے لیے سنگین خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔

عام شہریوں کو دن دہاڑے قیمتی اشیاء، نقدی اور موبائل فون سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اکثر مزاحمت پر ڈاکو فائرنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے، جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی ہو چکے ہیں اور بعض اوقات جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف عوام میں خوف و ہراس پھیلا رہی ہے بلکہ علاقے کے امن و امان کے لیے بھی سنگین خطرہ بنتی جا رہی ہے۔

یہ مسئلہ بہت ہی تشویشناک ہے اور فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں اور یہ صورت حال روز بروز خراب ہو رہی ہے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اس سنگین مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔اس مسئلے کے حل کے لیے چند تجاویز پیش خدمت ہیں:

  1. علاقے میں پولیس کی گشت میں اضافہ کیا جائے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں وارداتیں زیادہ ہو رہی ہیں۔
  2.  مشکوک افراد کی نشاندہی کے لیے عوام کو شامل کیا جائے اور علاقائی کمیٹیوں کو فعال کیا جائے تاکہ پولیس کے ساتھ تعاون ممکن ہو سکے۔
  3. سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں اور ان کی مدد سے وارداتوں کی نشاندہی کی جائے۔
  4. عوام کو خود حفاظتی تدابیر سے آگاہ کیا جائے اور ان کی رہنمائی کے لیے پولیس کی جانب سے خصوصی مہمات چلائی جائیں۔
  5.  جرائم پیشہ افراد کے خلاف فوری کارروائی کرتے ہوئے انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال ہو سکے۔

میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس مسئلے پر فوری نوٹس لیں گے اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کریں گے۔

شکریہ!

والسلام                    

خاکسار                     

ا۔ب۔ج                       

ناظم آباد کراچی               

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال 2: اپنے ضلع کے آفیسر ٹریفک پولیس کے نام خط لکھیے جس میں انھیں اپنے شہر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے بڑھتے رحجان اور اس کے باعث ہونے والے حادثات کی طرف توجہ دلائیں۔ نیز اصلاح احوال کے لیے تجاویز دیجیے۔

خط بعنوان : شکایت بابت ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں

امتحانی مرکز

5- اپریل 2024ء

مکرم و محترم آفیسر ٹریفک پولیس ضلع کراچی ایسٹ!

آداب۔

میں آپ کی توجہ ایک نہایت سنگین مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، جو ہمارے شہر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی، اوور لوڈنگ، اور تیز رفتاری کے سبب آئے روز بڑھتا جا رہا ہے۔ ان غیر ذمہ دارانہ حرکات کے باعث نہ صرف معصوم شہریوں کی جانیں خطرے میں پڑ رہی ہیں بلکہ شہر کی سڑکوں پر بدنظمی اور حادثات کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

اوور لوڈنگ کی وجہ سے سڑکوں کی حالت خراب ہو رہی ہے اور اکثر بھاری گاڑیاں بے قابو ہو کر حادثات کا سبب بن رہی ہیں۔ اسی طرح، تیز رفتاری اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے کئی جان لیوا حادثات رونما ہو چکے ہیں، جن میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ بدقسمتی سے اکثر موٹر سائیکل سوار اور کم عمر ڈرائیور بغیر ہیلمٹ اور لائسنس کے خطرناک طریقے سے گاڑی چلاتے ہیں، جو نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی زندگیوں کے لیے بھی خطرہ بن جاتے ہیں۔

ان مسائل کے حل کے لیے چند تجاویز پیش خدمت ہیں:

1. شہر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور چالان کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔

2. تیز رفتاری کو روکنے کے لیے اہم شاہراہوں پر اسپیڈ کیمروں اور سپیڈ بریکرز کی تنصیب کی جائے۔

3. اوور لوڈنگ کرنے والی گاڑیوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے اور ایسے ڈرائیوروں کے لائسنس معطل کیے جائیں۔

4. ٹریفک قوانین کی آگاہی کے لیے اسکولوں، کالجوں، اور عوامی مقامات پر مہم چلائی جائے۔

5. ٹریفک پولیس کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ قوانین پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد ممکن ہو سکے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اس اہم مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے فوری اور مؤثر اقدامات کریں گے تاکہ ہمارا شہر حادثات سے محفوظ اور ٹریفک قوانین کے لحاظ سے ایک مثالی شہر بن سکے۔

آپ کی توجہ اور اقدامات کا منتظر۔

والسلام

خاکسار

ا۔ب۔ج

:::::::::::::::::::::::::::::

سوال: آج کل ہمارے معاشرے میں طلباء وطالبات میں موبائل فون اور کمپیوٹر پر آن لائن کھیلوں کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ 

اپنے علاقے کے معروف اور مؤقر جریدے آواز کے مدیر کے نام خط لکھیے اور اس مسئلے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نوجوانوں کی اصلاح کے لیے تجاویز پیش کیجیے۔

عنوان:   مدیر کے نام خط برائے  نوجوانوں کی اصلاح

امتحانی مرکز 

15-اپریل 2024ء

مکرم و محترم مدیر صاحب روزنامہ آواز لاہور!

آداب۔

امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ کے جریدے کے توسط سے میں ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں، جو آج کل ہمارے معاشرے میں نوجوان نسل کے لیے ایک سنگین تشویش کا باعث بن رہا ہے۔

آج کل طلباء و طالبات میں موبائل فون اور کمپیوٹر پر آن لائن کھیلوں (آن لائن گیمز) کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ کھیل نہ صرف وقت کے ضیاع کا باعث بن رہے ہیں بلکہ ان کے ذہنی اور جسمانی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ نوجوان اپنے قیمتی وقت کو تعلیم، مطالعہ اور تخلیقی سرگرمیوں میں صرف کرنے کے بجائے آن لائن کھیلوں میں ضائع کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے، نیند کی کمی ہو رہی ہے، اور بعض اوقات یہ کھیل ان میں تشدد اور غیر اخلاقی رویوں کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔

نوجوانوں کی اصلاح کے لیے تجاویز:

1. والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے موبائل اور کمپیوٹر استعمال پر نظر رکھیں اور ان کے لیے وقت کا تعین کریں۔

2. تعلیمی اداروں میں طلباء کو آن لائن کھیلوں کے نقصانات کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور انہیں مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب کیا جائے۔

3. کھیل کے میدانوں کو بہتر بنایا جائے اور جسمانی کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ بچے حقیقی زندگی کے کھیلوں کی طرف مائل ہوں۔

4. حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے آن لائن کھیلوں کو محدود کرے جو نوجوانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔

5. میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو تعلیمی، تخلیقی، اور معاشرتی سرگرمیوں کی اہمیت کے بارے میں شعور دیا جائے۔

آپ کے مؤقر جریدے کی وساطت سے میری والدین، اساتذہ، اور حکومت سے اپیل ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور نوجوان نسل کی درست رہنمائی کریں۔

آپ کی توجہ اور تعاون کے لیے شکریہ۔

والسلام                    

خاکسار                     

خیر اندیش                 

ا۔ب۔ج                   

ہفتہ، 12 اکتوبر، 2024

مرزا غالب کا خط قائد اعظم کے نام ۔۔۔۔ طنزو مزاح

 مرزا غالب کا خط قائد اعظم کے نام


دہلی، 25 جولائی 2024ء

پیارے جناح،

سلام مسنون! امید ہے کہ آپ وہاں بخیریت ہوں گے۔ کراچی کی تپتی دھوپ اور ٹریفک کے بپھرے ہوئے سمندر کے متعلق جو خبریں مجھ تک پہنچی ہیں، ان پر کچھ عرض کیے بغیر رہنا مشکل تھا۔ ویسے، میں دہلی میں بیٹھ کر کراچی کے موسم اور حالات پر کیا ہی کہہ سکتا ہوں، لیکن جیسے دل کا مریض ڈاکٹروں کو مشورے دینے لگتا ہے، ویسے ہی میں بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔


دیکھیے، میری طبیعت تو اب ان چکروں سے باہر نکلنے کی نہیں ہے۔ میں یہاں دہلی میں بھی اگر بارش ہو جائے تو چھت کے نیچے ہی بیٹھا ہوں کہ کہیں بارش کا ایک قطرہ نہ گر جائے۔ اب کراچی میں جو حالات چل رہے ہیں، جیسے شہر کے سڑکیں پانی سے بھر کر تالاب بن گئیں ہیں، اور ٹریفک کے قافلے ایسے گھومتے ہیں جیسے کسی میدان جنگ میں صف بندی ہو رہی ہو، ان پر بھی یہی کہہ سکتا ہوں کہ مجھے تو بستر سے باہر نکلنے کا خیال ہی بے چین کر دیتا ہے۔


ویسے آپ کا کراچی کا سفر کچھ یوں ہے جیسے میرؔ کا سفر لکھنؤ ہوا کرتا تھا؛ بس فرق یہ ہے کہ وہاں تو شاعری ہوتی تھی، اور یہاں شہری انتظامیہ کے قصے! عوامی ٹرانسپورٹ کا عالم تو یہ ہے کہ آدمی رکشے میں بیٹھے تو رکشے والے کا حال یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اب اگلے چوک پر قسمت کا نیا پانسہ پلٹنے والا ہو کہ پٹرول ہوگا یا نہیں۔


تو، پیارے قائد، دل کی بات یہ ہے کہ کراچی میں جو بارش برستی ہے وہ تو ہمیں یہاں دہلی سے بھی سیراب کر جاتی ہے، مگر عوام کے دلوں میں جو امید کی خشکی ہے، اس کے خاتمے کا موسم ابھی شاید آپ ہی کے آنے سے آئے گا۔ دعا ہے کہ آپ کی قیادت میں کراچی کے ٹریفک اور سیوریج کا پانی یوں بہہ جائے جیسے میرا قلم کاغذ پر بہتا تھا، اور شہریوں کو ایسا چین ملے جیسے ہمیں ایک بھرپور نیند میں ملتا ہے۔

آپ کی صحت اور کراچی کی قسمت کی بہتری کی دعا کے ساتھ،


آپ کا مخلص، غالب


غزل: عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

غزل: عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

 کلام:  مظفر احمد ظفؔر


عین ممکن ہے کہ منزل نہ رہے آنکھوں میں

خواب باقی ہوں، پر حاصل نہ رہے آنکھوں میں

 

درد کا سمندر جو دل میں سمویا ہے ہم نے

شاید اُس کا کوئی ساحل نہ رہے آنکھوں میں

 

راستے بھی وہی ہیں، قدموں کے نشان بھی ہیں

 مگر اب پہلی سی بصارت،   نہ رہے آنکھوں میں


یوں تو آئے ہیں کئی لمحے سکونت کے لیے

پر وہ اک لمحۂ کامل نہ رہے آنکھوں میں

 

سپنوں  کا اک شہر،جو آباد کیا  تھا ہم نے

خوابوں کا وہی محمل نہ رہے آنکھوں میں

 

زندگی میں کئی خاص ملے تھے مجھ کو اے ظفرؔ

اب تو عام بھی، دید کے قابل نہ رہے آنکھوں میں

------